- प्रोफैसर कवलदीप सिंघ कंवल
پروفیسر کولدیپ سنگھ کنول -
ان محفلوں میں نہ، کبھی چرچا غریب کا
سکڑ جینا چاہے جو، اس بد نصیب کا
دن بھر مشکت، اور راتوں کو بھوکھ لیے،
کندھے اپنے ڈھوتا، بوجھ اپنی صلیب کا
آخر سوچیں بھی کیوں، کبھی اسکے بارے میں،
وجود بھی نہ مانو، تقاضہ یہ تہذیب کا
پھول تتلیاں چھوڑے، رومانیت نہ گایے،
کیسے مان لیں ہونا، کسی ایسے ادیب کا
کہیں بم پھٹا، باڑھ- و-بھوچال کہیں آیا،
چائے سنگ دم ٹوٹا، اخبار بیترتیب کا
بہت مرتے ایسے، روزانہ خبر بنتے ہیں،
کیوں سوچوں پھر بھلا، نہیں میرا قریب کا
بگڑ جاتا ہے توازن، ہماری زندگی کا،
بھول سے بھی کنول ہو، کبھی چرچا غریب کا
No comments:
Post a Comment